عماد اظہر کا شعری مجموعہ ’’ساتواں دن‘‘

نوید صادق

ساتواں دن


’’ساتواں دن‘‘ عماد اظہر کا تازہ اور میری معلومات کے مطابق دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’وجود‘‘ میری نظر سے نہیں گزرا۔ سو میں ہرگز یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ’’ وجود‘‘ میں ان کی شاعری کس رخ، کس طور رواں رہی، تاہم ایک بات قیاس کے سہارے کہنا ممکن ہے اور وہ یہ کہ پہلی کتاب کا عنوان جس طرف اشارے دے رہا ہے، ان کے سہارے ’’ساتواں دن ‘ ‘ کو ’’وجود‘‘ کی ایکسٹینشن کہنا ممکن ہے۔’’کن‘‘، ’’سات دن‘‘ اور ’’وجود‘‘ ۔۔۔۔ یقیناً ایسے اظہاریے ہیں جن سے صاحبانِ علم نا آشنا نہیں۔ سو ان تفصیلات میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ میرے خیال میں عماد کا قاری اور پھر میرا قاری ۔۔۔۔ دونوں ان بنیادی معاملات سے بہ خوبی آشنا ہیں۔پھر یوں بھی ہے کہ قیاس کے سہارے کہاں تک چلنا ممکن ہے، سو ’’ساتواں دن‘‘ پر ہی بات کا جواز نکلتا ہے، رہی عماد اظہر کی شخصیت تو اس سے میں کچھ زیادہ آگاہ بھی نہیں، بس ایک ملاقات ۔۔۔۔ جس میں انھوں نے اپنا شعری مجموعہ ’’ساتواں دن‘‘ عنایت فرمایا۔اس سے قبل شاید ہی کوئی ملاقات ہو لیکن فی الوقت میں اس کی تصدیق کرنے سے خود کو قاصر پاتا ہوں۔
تو پھر ۔۔۔۔ ساتواں دن ہے اور میں ہوں۔ اس کتاب کے مطالعہ کے دوران عجیب کیفیات سے گزرنے کا تجربہ ہوا۔ اب ان تجربات کو روحانی تجربات کہہ لیجیے کہ کوئی وارداتِ باطن جو اس شعری مجموعہ کے وسیلہ سے ممکن ہو پائی۔ساتواں دن میں شامل اشعار قاری لیکن جیسے قاری کے ذیل میں ایک دعویٰ میں نے اوپر کیا،عماد اظہر کا بھی اپنے قاری کے بارے میں انیس بیس کے فرق کے ساتھ ایسا ہی گمان رکھنا بنتا ہے۔ ویسے خود کو ایسے قارئین کی صف میں سے جاننا اچھا خاصا حوصلے کا کام ہے اور ادبی معاملات کی بات کی جائے تو تعلی ۔۔۔۔ لیکن اس قدر خوش گمانی تو میرے بنیادی حقوق میں شامل ہے، کیوں عماد صاحب! آپ مجھے اس خوش گمانی کی اجازت مرحمت فرماتے ہیں؟ عماد اظہر تو خاموش ہیں لیکن ’’ساتواں دن‘‘ اجازت بھی دے رہا ہے اور مکالمے کو بھی تیار نظر آتا ہے۔ مکالمہ تو خیر میں کیا کر پاؤں گا کہ کچھ معاملات بالا بالا ہی نکلتے محسوس ہوئے تاہم جہاں جہاں میں خود پاؤں جما سکا ، وہاں اپنے قاری کو ضرور اپنے ہمراہ رکھنا پسند کروں گا۔ یوں بھی یہ معاملات اکیلے اکیلے سر نہیں ہوتے، لیکن عماد اظہر تو اس سارے میں انتہائی اکیلے ہیں، اتنے اکیلے کہ بعض مقامات پر ان کا اکیلا پن ۔۔۔۔ لیکن عماد اظہر نے اس اکلاپے سے بہت کام لیا ہے۔ اور یہ کام ۔۔۔۔ لیکن وہ جو چھے دن مصروف رہا  ۔۔۔ مصروفیت تو خیر ایسی کوئی خاص نہ تھی کہ ’’کن‘‘ اور پھر چھے دن نظارہ اور ساتویں دن اس مکمل نظارے کے بعد آرام ۔۔۔۔ عماد آپ کہیں تھکتے، کہیں آرام کرتے نہیں ملے۔ آرام تو یقیناً کیا ہو گا لیکن آپ اپنے قاری سے یہ لمحات کہ آرام کی نظر ہوئے، چھپا لے گئے ہیں، آپ آرام کے ان لمحات کی اپنے قاری سے آشنائی کیوں نہیں چاہتے؟ کوئی خوف لاحق ہے کہ جو پا لیتا ہے ۔۔۔۔اس سوال کا جواب شاید آپ کے پاس نہ ہو لیکن میں کچھ کچھ جاننے کے قریب ہوں: آپ آرام کے ان لمحات کی تفاصیل کے بجائے ان لمحات کی تخلیقی جہات آشکار کرنا چاہتے ہیں لیکن شاید ابھی نہیں۔ یہ تخلیقی جہات جو آپ ہم سے (فی الوقت) چھپانے کی کوشش میں ہیں ۔۔۔۔ یقینی طور پر انبساط انگیز اور ولولہ خیز ہیں کہ ساتواں دن آپ کی منزل معلوم نہیں ہوتا۔ آپ مزید آگے کے چکر میں ہیں۔کچھ ایسا جان لینے کی ہوس میں مبتلا ہیں جو آپ کو بظاہر جاننے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے لیکن وہ عارفِ ذات ہی کیا جس کا سفر مکمل ہو جائے۔ خود آشنائی کا یہ سفر میرے نزدیک ہمیشہ تشنۂ تکمیل رہتا ہے۔ کہیے یہی بات ہے یاکچھ اور بھی ۔۔۔۔ جو آپ ہم سے چھپانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہ سراسر باطن کا سفر ہے اور باطن کی گہرائی و گیرائی اس سفر کو مکمل نہیں ہونے دیتی۔اتنی باتوں کے بعد میرے قاری کا حق بنتا ہے کہ چند اشعار سے لطف اندوز ہو ورنہ اس کے تھک کے بیٹھ جانے کا خدشہ کم از کم میرے دھیان میں سر اٹھانے لگا ہے۔ سو چند اشعار ملاحظہ فرمائیے کہ ایک تو میں اور میرا قاری تھوڑا دم لے سکیں اور اگلے سفر کے لیے تازہ دم ہو لیں کہ منزل دور تو کیا، تعینِ شکل و مقام کے اعتبار سے بھی خاصی معدوم محسوس ہو رہی ہے:

میں میسر تھا اسے اور میسر کے لیے
اس زمانے میں کوئی خاص جگہ ہے بھی نہیں

وہ لوگ کیسے مدینہ سے لوٹ آتے ہیں
جو اپنے آپ کو عشاق بھی سمجھتے ہیں

پیروں میں سیپیاں تھیں سمندر کی صبح دم
میں نے تمام خواب گزارا تھا ناؤ میں

اسم اور جسم کی تعلیم مکمل دے کر
ساتویں دن مجھے آواز لگائی میں نے

تمھاری آنکھ کا دریا ہی ایسا دریا ہے
درود پڑھ کے جہاں عرضیاں بہاتے ہیں

جھولتے رہتے ہیں تعویذ سرِ شاخِ بدن
یہ مسافر کو بلانے کے لیے ہوتے ہیں

یہ غار اور مدینہ کی سمت جلتا چراغ
اک انتظار میں یہ اہتمام ہونا تھا

رازکی بات بتا دی اسے انجانے میں
میرا کردار نہیں ہے مرے افسانے میں

مجھ کو دفنائے ہوئے لوگ ملا کرتے ہیں
جو بتاتے ہیں، بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے

نہیں، عماد صاحب! ایسا ہرگز نہیں، میں اس سارے عمل کو شاعرانہ گریز یا شاعرانہ شاطری ہی کہوں گا کہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ جو شخص یہ تک بتا دے کہ :

مجھ سے پہلے بھی کئی بار مرا ذکر ہوا
مجھ سے پہلے بھی گزارا ہے زمانہ میں نے

اس سے کس طور یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ باطن کے اس قدر طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد بڑے آرام سے یہ کہہ دے کہ میاں بتانے کو تو کچھ بھی نہیں ہے، میں تو کہیں تھا ہی نہیں۔ معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ بتانے کے لیے تو بہت کچھ ہے، جو ہاتھ آ گیا ہے لیکن شاید ابھی آپ اپنے تئیں یہ سب بتا سکنے کی پوزیشن میں نہیں آ پائے۔میرے نزدیک تو آپ نے بہت کچھ چھپاتے چھپاتے بہت کچھ بتا بھی ڈالا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ابھی وہ سب جو آپ جان لینے کے چکر میں ہیں یعنی جسے میں نے سطورِ بالا میں ’’آگے کے چکر میں ہونا‘‘ کہا… یہ ’’آگے سے آگے‘‘ استعجاب و حیرت کے در کھولتا چلا جاتا ہے اور یہ در کہیں اختتام پذیر نہیں ہوتے، یہ سفر کہیں مکمل نہیں ہو پاتا۔لیکن جہاں تک آپ پہنچ پائے ہیں، اس کے بارے میں ۔۔۔۔ کوئی بڑا راز پا لیا گیا ہے لیکن یہ راز بڑا اِس لیے محسوس نہیں ہو پا رہا کہ آگے کا ’’تجسس‘‘ اور قبل از وقت حیرت کچھ کہنے نہیں دیتی۔ورنہ:

ایک صندوق ہے، صندوق پہ ہے نقشِ قدیم
اس کے ہم راہ عریضہ ہے سرِ آبِ رواں

صندوق لگ گیا ہے مرے ہاتھ، دوستو!
یہ راز آخری تھا بتانے کے واسطے

اب یہ راز قاری تک کب پہنچ پائے گا، اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا کہ میری رسائی صرف اپنے باطن تک ہے، عماد اظہر کاباطن عماد اظہر جانے۔ اس سارے میں مَیں غزل تک محدود رہا لیکن نظموں کی بات کی جائے تو ’’سفر‘‘، ’’افسردہ پرندے‘‘ اور ’’سمت‘‘ میرے نکتۂ نظر کی تائید کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ باقی نظموں میں اپنے آپ کو دہرانے کا عمل حاوی دکھائی دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عماد اظہر کی غزل  ۔۔۔۔ ٹھیریے ۔۔۔میں کوئی فتویٰ صادر کرنے سے پہلے غور و فکر سے کام کیوں نہیں لیتا۔ تو قصہ کچھ یوں ہے کہ عماد اظہر جن معاملات سے دوچار ہیں ان کی بھرپور ترجمانی کے لیے زیادہ موثر اور کارگر وسیلہ غزل ہے، نظم نہیں۔

Related posts

Leave a Comment